زوجہ امام عالی مقام حضرت شہر بانو رضی اللہ عنہا کے حالات و کمالات -
آپ شہنشاہ ایران یزدگرد کی بیٹی ہیں، وفیات الاعیان میں آپ کا نام سلافہ مذکور ہے جو ظاہر ہے کہ شہربانو کا معرب اور عربی تعبیر ہے -
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب ایران پر فوج کشی ہوئی اور یزدگرد کو شکست ہوئی تو قیدیوں میں یزد گرد کی تین بیٹیاں بھی شامل تھیں جن میں سے ایک کا نام شہر بانو تھا اور وہ آپ ہیں، تینوں کو اسلام کی دعوت دی گئی جسے انہوں نے قبول کیا اور مسلمان ہوگئیں، اب انہیں اختیار دیا گیا کہ چاہیں تو اپنے وطن چلی جائیں اور چاہیں تو مدینہ ہی میں سکونت کریں، انہوں نے کہا ہم نہیں چاہتی ہیں کہ جس ملک میں ہم نے شہنشاہی کی زندگی گزاری ہے اب وہاں دوبارہ جا کر چرواہی کی زندگی گزاریں، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین کی اجازت سے ان میں سے ایک کو اپنے حسین کے لیے قبول کرلیا اور باقی دو کے لیے انہوں نے امیر المومنین کو مشورہ دیا کہ ان میں سے ایک کو اپنے فرزند عبداللہ کے لیے قبول کرلیں اور دوسری محمد بن ابی بکر کو دے دیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت ہے کہ امراء و حکام کی بچیوں کا نکاح ان کی شایان شان شوہروں سے کرایا جائے
- کہتے ہیں کہ جب صحابہ کے بیٹوں نے یزدگرد کی شہزادیوں سے نکاح کر لیا تو اس دن سے عجمی النسل خواتین کے ساتھ اہل عرب کو نکاح کرنے میں کوئی عار نہ رہا - یزدگرد کی جس شہزادی کو حضرت علی نے امام حسین کے لئے قبول کیا وہ شہر بانو تھیں اور چونکہ حضرت امام زین العابدین انہیں کے بطن سے ہیں لہٰذا قیامت تک کے حسینی سادات انہیں معزز خاتون شہر بانو کی نسل و اولاد سے ہیں -
میدان کربلا میں آپ امام عالی مقام کے ساتھ تھیں - جب امام عالی مقام عمامہ باندھ کر اور آلات حرب و ضرب سے لیس ہو کر یعنی قبائے مصری زیب تن کر کے، عمامہ رسول سر پر باندھ کر، سید الشہداء حضرت امیر حمزہ کا ڈھال پشت سے لگا کر، ذوالفقار شاہ ولایت حمائل کر کے ذو الجناح گھوڑے پر سوار ہوکر اپنے اہل خانہ کو خدائے تعالیٰ کے سپرد کر کے میدان جنگ میں پہنچے اور انفرادی جنگ میں امراء شام میں سے تمیم بن قحطبہ کو اور شام و عراق اور مصر و روم کے مشہور و معروف جنگجو و پہلوان یزید ابطحی کو قتل کرنے کے بعد لڑتے بھڑتے نہر فرات تک پہنچے اور قریب تھا کہ پانی کا گھونٹ لیتے کہ اتنے میں ایک دشمن نے شور کیا کہ اے حسین تو پانی پی رہا ہے جبکہ ادھر تیرے خیمے اور مستورات پر حملہ ہو چکا ہے یہ سنتے ہی آپ نے پانی سے مونہہ ہٹالیا اور دشمنوں سے لڑتے ہوئے خیمہ تک پہنچے اور جب وہاں سب کو سلامت پایا اور دشمنوں میں سے کسی کو نہیں دیکھا تو سمجھ گئے کہ یہ خبر جھوٹی تھی اور یہ جھوٹ اس لیے بولا گیا تا کہ میں پانی نہ پیوں تو آپ نے خیمے میں موجود تمام اہل خانہ کو دوبارہ نصیحت کی، انہیں اپنی شہادت کی مصیبت برداشت کرنے کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا، صبر کی تاکید کی، جزع و فزع سے منع کیا، یتیموں کی نگہداشت و حفاظت کی تلقین کی، امام زین العابدین کو گود لیا، ان کے چہرے کو بوسہ دیا انہیں نصیحت کی اور جب ایک ایک کر کے سب کو آخری بار الوداع کہہ کر رخصت ہونے کا قصد کیا اس وقت حضرت حضرت شہر بانو آپ کے سامنے آ ئیں اور عرض کیں :
شوہر سرتاج آپ کی بہنیں اور بیٹیاں اولاد رسول ہیں اس لیے. آپ کی شہادت کے بعد ان کے ساتھ کوئی بدتمیزی کرنے کی جسارت نہیں کرے گا لیکن میں تو یزدگرد کی بیٹی ہوں ڈرتی ہوں کہ کہیں یہ دشمن آپ کے حرم کی حرمت کا پاس و لحاظ نہ رکھیں اور میرا قصد کریں آپ نے فرمایا گھبراؤ مت ان شاء اللہ کسی کو تم پر غلبہ حاصل نہیں ہوگا اور تم ہمیشہ محترم و مکرم رہو گی -
اور ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : جب میرا جسم گھوڑے سے نیچے گر جائے گا تو گھوڑا تمہارے پاس آئے گا تم اس پر سوار ہو جانا اور لگام اسی کے حوالے کر دینا وہ تمہیں کسی محفوظ مقام پر جہاں اللہ چاہے گا پہنچا دے گا - لیکن اصح یہ ہے کہ حضرت شہر بانو اہل بیت کے ہمراہ ملک شام گئیں -
امام کے ساتھ آپ کا عرض و معروض روضۃ الشھداء کی اصل عبارت میں اس طرح ہے :
شہر بانو پیش آمد کہ ای سید و سرور من دریں ملک غریبم و غمخوار و غمگساری ندارم خواہران و دختران تو اولاد حضرت رسالتند صلی اللہ علیہ و سلم کسی را بر ایشان دستی نباشد و طریقہ حرمت ایشان نگاہ دارند اما من دختر یزدجرد شہر یارم و غیر از تو کسی ندارم مبادا کہ دشمنان بعد از تو قصد من کنند و حرمت حرم محترم تو نگاہ ندارند امام حسین گفت ای شہر بانو غم مخور کہ کسی را بر تو دست نباشد و ہمیشہ مکرم و محترم خواہی بود و روایتی آنست کہ امام حسین فرمود کہ درآن ساعت کہ مرا از پشت مرکب در اندازند مرکب نزد شما خواہد آمد تو بر نشین و عنان بدو سپار کہ تو مرا از میان قوم بیرون بردہ بجای کہ خدای خواہد برساند اما اصح آنست کہ شہر بانو ہمراہ اہل بیت بشام رفتہ -
( مختار اشرف لائبریری کی کئی تاریخی کتابوں سے ماخوذ )
نوشادعالم اشرفی جامعی کشنگنجوی استادجامع اشرف کچھوچھہ شریف -
0 Comments